مولانا جلال الدین رومی اور شمس تبریز: روشنی کے دو مینار

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے قرآن پاک جیسا عظیم تحفہ اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعے دنیا تک پہنچایا۔ نیک لوگوں نے اس پیغام کو نہ صرف خود اپنایا بلکہ دوسروں تک پہنچانے میں بھی کوئی کمی نہ چھوڑی۔ درس و تدریس اسی تبلیغ کا ایک عظیم ذریعہ تھا۔
📖 ایک عجیب واقعہ، ایک عظیم ملاقات
ایک دن ایک استاد دریا کے کنارے بیٹھے اپنے شاگردوں کو قرآن و حکمت کا درس دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بزرگ، جو بظاہر مسافر لگتے تھے، وہاں سے گزرے۔ ان کے کپڑے خاک آلود اور جوتے پھٹے ہوئے تھے۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے درس سنتے رہے، پھر آہستگی سے بولے:
“اس کتاب میں کیا ہے؟”
استاد نے ادب سے جواب دیا:
“حضرت! اس کتاب میں وہ کچھ ہے جو آپ نہیں جانتے۔”
بزرگ نے کہا: “دکھاؤ!”
انہوں نے کتاب ہاتھ میں لی اور اچانک اسے پانی سے بھرے حوض میں پھینک دیا۔
استاد پریشان ہو گئے، ان کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔
“حضرت! آپ نے میری محنت کو برباد کر دیا۔ یہ میرا قیمتی نسخہ تھا!”
بزرگ مسکرائے اور بولے:
“ارے روتے کیوں ہو، ذرا ٹھہرو۔”
انہوں نے حوض میں ہاتھ ڈالا اور کتاب باہر نکالی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کتاب بالکل خشک تھی، جیسے کبھی پانی میں گئی ہی نہ ہو۔
استاد دم بخود رہ گئے اور پوچھا:
“حضرت! یہ کیا ماجرا ہے؟”
بزرگ نے کہا:
“یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے۔”
یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے چلتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ استاد حیرت میں ڈوبے پیچھے دوڑے اور ان سے لپٹ گئے۔
🌟 وہ بزرگ کون تھے؟
بچو! وہ بزرگ تھے شمس تبریز (اصل نام: شمس الدین)، جن کی صحبت نے ایک عام عالم کو روحانی دُنیا کا سورج بنا دیا۔ وہ عالم بعد میں مولانا جلال الدین رومی کے نام سے مشہور ہوا، جن کے بارے میں آج ہم تفصیل سے جانیں گے۔
🌱 مولانا رومی کا بچپن
مولانا جلال الدین رومی 4 ربیع الاول 604 ہجری (30 ستمبر 1207ء) کو جمعہ کے دن بلخ (موجودہ افغانستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ بہاؤ الدین ایک بڑے عالم، صوفی اور نیک سیرت انسان تھے۔
کہتے ہیں، مشہور صوفی خواجہ فرید الدین عطار نے بچپن میں ہی رومی کو دیکھ کر کہا تھا:
“یہ بچہ علم و عرفان کا سورج بنے گا۔”
رومی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور بعد ازاں اُن کے مرید سید برہان الدین سے حاصل کی، جو وقت کے بڑے عالم تھے۔
🏞 ہجرت کا سفر
جب رومی کی عمر 14 سال تھی، تو منگولوں کے حملوں کی وجہ سے ان کے والد نے بلخ سے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ وہ اہلِ خانہ سمیت بغداد، حجاز، شام سے ہوتے ہوئے آخرکار قونیہ (ترکی) پہنچے، جہاں انہیں خوب عزت و محبت ملی۔
🎓 تعلیم اور علم دوستی
رومی نے صرف مذہبی علوم ہی نہیں، بلکہ:
منطق
ریاضی
طبعیات
فلسفہ
اخلاقیات
قرآن و حدیث
کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔ چوبیس سال کی عمر تک وہ ایک جید عالم بن چکے تھے۔
🔁 شمس تبریز سے ملاقات — زندگی کا انقلاب
27 جمادی الثانی 642 ہجری (30 نومبر 1244ء) کو رومی کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا، جب ان کی ملاقات شمس تبریز سے ہوئی۔
یہ ملاقات اتنی پُراثر تھی کہ رومی کی شخصیت میں ایک روحانی انقلاب آ گیا۔ وہ صرف “عالم” نہیں رہے، بلکہ “عارف”، “محبت کے شاعر” اور “درویش” بن گئے۔
🌙 عبادت اور روحانیت
مولانا رومی انتہائی عبادت گزار انسان تھے۔ اکثر دس دس دن کے روزے رکھتے، اور کئی بار ایسا ہوا کہ عشاء کی نماز کے بعد نفل کی نیت کرتے اور وہی نماز فجر تک جاری رہتی۔
ایک بار نماز میں رو پڑے۔ سردی ایسی تھی کہ آنسو اُن کے چہرے پر جم گئے۔
📚 مثنوی مولانا روم
یہ مولانا رومی کی وہ مشہور کتاب ہے جو دنیا بھر میں تصوف، محبت، عقل اور معرفت کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔
اس میں 2626 اشعار ہیں
اصل زبان فارسی ہے
قرآن، حدیث، فلسفہ، اور مذاہب کا خوبصورت امتزاج ہے
دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے
علامہ اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی مرشد مانتے تھے۔
🕯 وفات
مولانا رومی نے 6 جمادی الثانی 672 ہجری (17 دسمبر 1273ء) کو پیر کے دن وفات پائی۔ ان کی وفات کے چند دن بعد، ان کی پیار بھری بلی بھی مر گئی، جسے اُن کی قبر کے قریب دفن کیا گیا۔
ان کی تعلیمات کو ان کے بیٹے، پوتے اور دیگر شاگردوں نے آگے بڑھایا۔
✨ سبق
مولانا رومی کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ:
علم صرف کتابوں سے نہیں، روحانیت اور محبت سے بھی حاصل ہوتا ہے
اصل علم وہ ہے جو انسان کو انسان سے جوڑ دے
اللہ کی معرفت کے لیے دل کو بھی پڑھنا پڑتا ہے