
ایک لکڑہارا روزانہ جنگل جا کر لکڑیاں کاٹتا اور شہر میں بیچ کر اپنے گھر کا گزارا کرتا تھا۔ ایک دن اسے جنگل میں ایک بہت ہی بڑا اور پرانا درخت نظر آیا۔ اُس نے سوچا کہ اگر یہ درخت کاٹ لوں تو بہت ساری لکڑیاں مل جائیں گی، اور ان سے اچھے پیسے بھی کماؤں گا۔ چنانچہ اُس نے درخت کاٹ دیا اور ساری لکڑیاں اپنے گھر لے آیا۔
اگلے دن جب وہ صبح اٹھا تو گاؤں میں شور مچا ہوا تھا۔ سب لوگ بات کر رہے تھے کہ کسی نے جنگل کا سب سے بڑا درخت کاٹ دیا ہے۔ یہ کوئی عام درخت نہیں تھا بلکہ بادشاہ نے اسے اپنے بیٹے کی پیدائش پر یادگار کے طور پر لگوایا تھا۔ اب بادشاہ کے سپاہی اُس شخص کو ڈھونڈ رہے تھے جس نے وہ درخت کاٹا۔
جب لکڑہارے کو یہ سب پتا چلا تو وہ فوراً اپنے ایک قریبی دوست کے پاس گیا۔ اس نے سارا ماجرا سنایا اور کہا:
“یار! میری مدد کرو، اب میں کیا کروں؟”
دوست نے سنجیدگی سے کہا:
“سپاہی تو گاؤں کے ہر گھر کی تلاشی لے رہے ہیں، تم یہ بتاؤ کہ تم خود چھپو گے یا لکڑیاں؟”
لکڑہارے نے کہا:
“لکڑیاں تو اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو چھپانا مشکل ہے۔ اگر میں کہیں چھپ بھی گیا تو میرے گھر کی تلاشی لی جائے گی، اور سب جانتے ہیں کہ وہ گھر میرا ہے۔”
دوست نے مشورہ دیا:
“تو بہتر ہے تم فوراً یہاں سے بہت دور نکل جاؤ، جہاں سپاہی تمہیں نہ ڈھونڈ سکیں۔”
لکڑہارا دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ سامنے سپاہی آ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے فوراً اسے گرفتار کر لیا اور کہا:
“ہم نے تمہارے گھر کی تلاشی لی ہے، وہاں وہی لکڑیاں موجود ہیں جو اس خاص درخت کی ہیں۔ ان لکڑیوں میں ایک پر شہزادے کا نام بھی لکھا ہوا تھا، جو بادشاہ نے شہزادے کی بارہویں سالگرہ پر کندہ کروایا تھا۔ اب تمہیں بادشاہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔”
لکڑہارا خوفزدہ ہو گیا۔ جب اُسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو اُس نے عاجزی سے کہا:
“مجھے معاف کر دیں، مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ میں لالچ میں آ گیا تھا، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ درخت اتنا اہم ہے۔”
بادشاہ نے غصے سے کہا:
“تم نے نہ صرف ایک یادگار درخت کاٹا بلکہ تم ملک کے اصولوں کو بھی نظرانداز کرتے ہو۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اگر کوئی درخت کاٹے تو اُس کی جگہ ایک نیا پودا لگانا ضروری ہے؟”
پھر بادشاہ نے فیصلہ سنایا:
“تمہیں ایک سال جیل کی سزا دی جائے گی تاکہ آئندہ کوئی ایسی غلطی نہ کرے۔”